Chandani Raat Ka Wahda – A Romantic Urdu Novel

“Chandani Raat Ka Wahda” complete Romantic Urdu Novel

“چاندنی رات کا وعدہ”

انارکلی کی گلیوں میں پہلی نظر

لاہور کی گلیوں کا ایک الگ ہی رنگ ہے، اور پرانی انارکلی بازار ان گلیوں کا دل ہے۔ یہاں وقت تھم جاتا ہے، خوشبوؤں میں پرانی محبتیں بسی ہوتی ہیں، اور ہر قدم پر ایک کہانی چھپی ہوتی ہے۔

سحر، ایک بیس سالہ لڑکی، اردو ادب سے عشق رکھنے والی، ہر ہفتے جمعے کے دن پرانی انارکلی کا رخ کرتی۔ وہ کتابوں کے ایک مخصوص اسٹال پر جا کر کھڑی ہو جاتی، جہاں پرانی اردو کہانیوں، شاعری کی کتابوں، اور ادیبوں کی خوشبو بکھری ہوتی۔

اسی اسٹال پر، علی نامی ایک لڑکا اکثر بیٹھا ہوتا۔ وہ کوئی عام لڑکا نہیں تھا۔ اُس کی آنکھوں میں گہرائی، چہرے پر سنجیدگی، اور ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری ہوتی تھی، جس میں وہ لفظوں کو قید کرتا۔ علی ایک شاعر تھا، لیکن ایسا شاعر جس کے الفاظ آج بھی چھپنے سے خالی تھے — وہ صرف کاغذ پر رہتے، اور سحر کے چہرے پر آ کر مکمل ہوتے۔

سحر نے پہلی بار علی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ غالب کی کتاب کے ایک ورق پر رک کر مسکرا رہا تھا۔ سحر نے ہلکے لہجے میں پوچھا:

“شاعری پسند ہے یا غالب کا اندازِ بیان؟”

علی نے بغیر نظر اٹھائے جواب دیا:

“غالب کو سمجھنے کے لیے دل میں کوئی سحر ہونا ضروری ہے۔”

سحر نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔ اسے لگا، جیسے وہ جملہ صرف اس کے لیے کہا گیا ہو۔

اسی دن سے ملاقات کا ایک انوکھا سلسلہ شروع ہوا۔ نہ کسی نے راستہ پوچھا، نہ نمبر مانگا، نہ کوئی رسمی بات چیت ہوئی — بس ہر جمعہ، وہی اسٹال، وہی کتابیں، اور وہی ان کہی باتیں۔

علی اکثر ایک پرانی سی نظم سحر کے لیے پڑھتا:

“کبھی چپکے سے تم کو دیکھنا، جیسے چاندنی چھت پر اترے۔۔۔
کبھی بارش کی بوندوں میں، تمہاری سانسوں کو سننا۔۔۔”

سحر ہنستی، اور کہتی:

“آپ کو الفاظ کی زبان آتی ہے، علی صاحب… مگر کیا کبھی دل کی زبان بھی بولی ہے؟”

علی خاموش ہو جاتا… جیسے وہ دل کی زبان سے واقف ہو، مگر ابھی بولنے کی ہمت نہ ہو۔

یہ خاموشی، یہ جمعے کی ملاقاتیں، یہ غیر رسمی تعلق… ایک نئے عشق کا آغاز تھا — ایسا عشق، جو لفظوں سے شروع ہو کر دل میں جا بسا۔

لفظوں سے لبریز خاموشی

جمعے کی شام ہمیشہ سے خاص تھی۔ بازار کی رونقیں بڑھ جاتیں، دکاندار چراغاں کر دیتے، اور انارکلی کی گلیاں خوشبوؤں سے مہک جاتیں۔ مگر سحر کے لیے یہ دن صرف ایک بات کا منتظر ہوتا — علی کا چہرہ۔

اس بار جب سحر پہنچی، علی پہلے سے وہاں موجود تھا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا، نہ ڈائری، نہ کتاب، بس خاموشی۔ سحر نے مسکرا کر سلام کیا:

“آج کچھ لکھا نہیں؟”

علی نے نظریں اٹھائیں، اُس کے چہرے پر عجیب سی سنجیدگی تھی:

“آج کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی… کیونکہ کچھ محسوسات لفظوں سے باہر ہوتے ہیں۔”

سحر کو پہلی بار علی کی خاموشی بھاری لگی۔ وہ کچھ پل چپ رہی، پھر آہستگی سے بولی:

“تو کیا اُن محسوسات کو بس خاموشی میں جینے کا ارادہ ہے؟”

علی نے گہری سانس لی اور آسمان کی طرف دیکھا، جہاں شام کا سورج ڈوبنے کو تھا:

“کاش دل کو لکھا جا سکتا۔ کاش وہ باتیں جو صرف نظروں میں چھپی ہیں، کاغذ پر اتر آتیں۔”

سحر نے اپنے بیگ سے ایک چھوٹی سی ڈائری نکالی، جو وہ اپنے ساتھ رکھتی تھی، اور علی کے ہاتھ میں تھما دی:

“آج سے اس میں صرف وہ باتیں لکھنا، جو کہی نہیں جا سکتیں۔ میں پڑھوں گی، مگر صرف تب… جب تم کہنا چاہو۔”

علی کی آنکھوں میں نمی سی چمکنے لگی۔ اس نے آہستہ سے ڈائری تھامی، اور کچھ لمحے خاموش کھڑا رہا۔ پھر دھیرے سے بولا:

“سحر، اگر کبھی میں چلا گیا… تو تم یہ ڈائری ضرور پڑھنا۔ یہ شاید میری سب سے سچی چیز ہوگی۔”

سحر کا دل دھڑکنے لگا۔ یہ بات اچانک تھی۔ اُس نے فکرمندی سے پوچھا:

“کہیں جا رہے ہو؟”

علی نے نظریں چرا لیں۔ صرف اتنا کہا:

“شاید… وقت قریب ہے۔ لیکن وعدہ ہے، تمہیں چاندنی رات میں تنہا نہیں چھوڑوں گا۔”

سحر کا دل عجیب کشمکش میں ڈوبنے لگا۔ وہ لمحہ، جب لفظ بولنے سے زیادہ خاموشی چیخ رہی تھی، قریب آ چکا تھا۔

اسی دن کے بعد، علی کچھ بدلا بدلا سا رہنے لگا۔ وہ مسکراتا تو سہی، مگر آنکھوں میں اداسی چپکے سے جا بسی تھی۔

سحر نے اپنے دل میں پہلی بار محسوس کیا… کہ یہ صرف محبت نہیں، یہ کوئی بڑا امتحان آنے والا ہے۔

پرانا زخم، نیا راز

علی کی خاموشی دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ اب وہ وہی نہیں رہا تھا جو پہلے لفظوں میں محبت بُنتا تھا۔ سحر یہ تبدیلی محسوس کر رہی تھی، مگر کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہو رہی تھی۔ بعض رشتے اتنے نازک ہوتے ہیں کہ ان میں ایک سوال بھی فاصلے بڑھا دیتا ہے۔

جمعے کی شام آئی، مگر علی نہیں آیا۔

سحر سارا دن وہیں اسٹال کے قریب بیٹھی رہی۔ ہر آتی جاتی آہٹ پر چونکتی، ہر چہرے کو غور سے دیکھتی، مگر علی کہیں نہیں تھا۔

شام ڈھلی، رات ہوئی، انارکلی کی گلیاں ویران ہونے لگیں، مگر سحر کی آنکھوں میں ایک اُمید تھی — وہ آئے گا۔

مگر وہ نہیں آیا۔

اگلے دن، جب وہ دوبارہ اسٹال پر گئی، کتابوں والے بزرگ نے اُس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھما دیا:

“بی بی، علی صاحب یہ چھوڑ گئے تھے، اور کہا تھا کہ سحر کو دے دینا۔”

سحر کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اُس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے لفافہ کھولا۔ اندر وہی چھوٹی سی ڈائری تھی — اور ایک خط۔


خط کا متن:

“سحر،

مجھے لفظوں سے محبت ہے، اور شاید اسی لیے تم سے بھی۔

مگر محبت ہمیشہ ساتھ کے لیے نہیں ہوتی۔

میرا ماضی ایک بوجھ ہے، جو میں تمہارے پاکیزہ دل پر نہیں ڈال سکتا۔ میں تم سے جھوٹ بول کر ساتھ نہیں رہ سکتا۔

میں ایک ایسا شخص ہوں جسے وقت نے ادھورا کر دیا تھا۔ میرے ماں باپ میرے بچپن میں ہی چھوڑ گئے تھے، رشتے داروں نے بوجھ سمجھ کر نکال دیا۔ میں سڑکوں، لائبریریوں اور شاعری میں پناہ لیتا رہا۔

سحر، تم میری روشنی تھی، مگر میں تمہیں اپنی تاریکی کا حصہ نہیں بننے دینا چاہتا۔

میں جا رہا ہوں، شاید ہمیشہ کے لیے نہیں… لیکن جب لوٹوں گا، تو اُس چاندنی رات کو پورا کرنے۔

تم بس وعدہ کرنا، انتظار کرو گی؟

ہمیشہ کا — علی”


خط کے آخری الفاظ نے سحر کو توڑ دیا۔ وہ وہیں اسٹال کے پاس زمین پر بیٹھ گئی، آنکھوں سے آنسو بے اختیار بہہ نکلے۔ سحر کی دنیا جیسے رک گئی تھی۔ نہ لفظ باقی تھے، نہ آواز — بس دل کی دھڑکن میں ایک ہی صدا تھی:

“تم بس وعدہ کرنا، انتظار کرو گی؟”

سحر نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چاند آدھا تھا… جیسے علی ادھورا چھوڑ گیا ہو۔

اُس لمحے سحر نے خود سے، چاندنی رات سے، اور علی کی محبت سے ایک وعدہ کیا:

“میں وعدہ کرتی ہوں، تم لوٹو یا نہ لوٹو، میری محبت مکمل رہے گی… تمہارے لفظوں کی طرح پاک، خاموش اور سچی۔”

ایک وعدے کا سفر

علی جا چکا تھا، مگر اُس کی خوشبو، اُس کی آواز، اُس کے الفاظ سحر کے آس پاس رہنے لگے تھے۔ وہ ہر جمعہ اسی اسٹال پر آتی، اُس ڈائری کو ساتھ لاتی، اور علی کی دی گئی خاموشی کو دل سے لگا کر بیٹھ جاتی۔

دن، ہفتے، مہینے گزرتے گئے۔

سحر نے خود کو سنبھال لیا تھا، مگر دل کا خلا وہی تھا — خالی، سنّاٹا، ادھورا۔ اس نے اپنی تعلیم مکمل کی، ماسٹرز اردو ادب میں کیا۔ اب وہ ایک لائبریری میں کام کرنے لگی تھی — شاید علی کی خوشبو کے اور قریب۔

اکثر وہ خالی وقت میں بچوں کو کہانیاں سناتی، نوجوانوں کو شاعری کی نشستیں کرواتی، اور خاموشی میں وہ ڈائری پڑھتی رہتی۔ علی کی لکھی چند سطریں اُس کے لیے ایک زندہ رشتہ تھیں۔

وہ ڈائری اب اُس کے دل کی دھڑکن بن چکی تھی۔

ڈائری کا ایک ورق:

“سحر، اگر کبھی تمہیں زندگی میں کوئی اور ملے… جو تمہیں وہ خوشی دے سکے جو میں نہیں دے سکا، تو ہچکچانا مت۔ محبت قید نہیں ہوتی، محبت آزاد کرتی ہے۔ مگر اگر تم نے میرے انتظار کو اپنایا، تو جان لینا، میں جہاں بھی ہوں، تمہارے قریب ہوں۔”

سحر ہر بار اس صفحے پر آ کر رک جاتی۔ آنکھیں بھیگ جاتیں، مگر دل کہتا:
“محبت کا فیصلہ کبھی کمزور لمحوں میں نہیں ہوتا۔ میں اُس کی ہوں، اور رہوں گی۔”

ایک دن، لائبریری میں ایک ادبی سیمینار رکھا گیا۔ نامور شاعر، ادیب، اور نوجوان لکھاری شامل تھے۔ سحر انتظامات میں مصروف تھی کہ ایک مہمان کا تعارف سن کر اُس کے قدم رک گئے:

“ہمارے آج کے مہمان ہیں — نوجوان شاعر اور ادیب، علی حسن، جن کا یورپ میں اردو ادب کو زندہ رکھنے میں بڑا کردار رہا…”

سحر کا دل ایک لمحے کو دھڑکنا بھول گیا۔

کیا یہ وہی علی ہے؟ کیا وہ واپس آ گیا؟

وہ ہال میں داخل ہوا، سحر کے سامنے، برسوں بعد — وہی آنکھیں، وہی خاموشی، مگر چہرے پر وقت کے نقش گہرے تھے۔

علی کی نظریں سحر پر پڑیں۔ لمحہ جیسے جم سا گیا۔ سحر کی آنکھوں میں آنسو، علی کی آنکھوں میں ندامت، محبت، اور بےپناہ سکون تھا۔

سٹیج پر آنے سے پہلے علی نے صرف ایک جملہ کہا:

“میں لوٹ آیا ہوں، چاندنی رات کا وعدہ نبھانے…”

ہال کی تالیوں میں دونوں کی خاموشی چیخ رہی تھی — برسوں کی دوری، خاموشی، وفا — آج ایک مکمل لمحے میں سمٹ گئی۔

وہ سچ، جو عشق کو آزماتا ہے

علی کے واپس آنے کے بعد لاہور کی ہوائیں جیسے بدل گئی تھیں۔ پرانی انارکلی کی گلیوں میں وہی خوشبو پھر سے لوٹ آئی تھی۔ لیکن اب ان کی محبت صرف جذبات کا بہاؤ نہیں رہی — اب یہ وفا کا امتحان بننے والی تھی۔

سحر اور علی کی ملاقات سیمینار کے اگلے دن ہوئی، وہی کتابوں والا اسٹال، وہی خاموش زاویہ، بس وقت بدل چکا تھا۔

علی نے سحر کو دیکھا، اور دھیرے سے کہا:

“میں جانتا ہوں، تمہیں ہزار سوال ہوں گے۔”

سحر نے دھیرے لہجے میں جواب دیا:

“نہیں علی، بس ایک۔ اتنے برسوں بعد کیوں؟”

علی خاموش ہوا۔ اُس نے جیب سے وہی پرانی ڈائری نکالی، جو سحر نے اُسے برسوں پہلے دی تھی۔ اُس نے ایک صفحہ کھولا، اور پڑھنا شروع کیا:

“میں اس شہر سے اس لیے جا رہا ہوں کیونکہ میرا دل بوجھ بن گیا ہے۔ میں جانتا ہوں، میں تم سے محبت کرتا ہوں، مگر میں اپنے ماضی سے آزاد نہیں ہوں۔”
“میری زندگی میں ایک ایسا باب ہے، جو تمہیں تکلیف دے سکتا تھا۔”
“میرے یورپ جانے کا مقصد صرف ادبی سفر نہیں تھا… میں ایک بیماری سے لڑ رہا تھا، جو شاید زندگی چھین سکتی تھی — خون کی ایک نایاب بیماری، جو تب لاعلاج سمجھی جاتی تھی۔”

سحر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

“تو تم نے کہا بھی نہیں؟”

علی نے نظریں جھکائیں۔

“میں چاہتا تھا کہ اگر میری زندگی ختم ہو جائے، تو تم مجھ سے جڑی رہ کر بکھرو نہیں۔ میں چاہتا تھا تم آزاد رہو۔”

سحر نے کانپتے لہجے میں کہا:

“اور اگر تمہیں کچھ ہو جاتا؟ کیا میں پوری زندگی ایک ایسے انسان کی تلاش میں بھٹکتی رہتی جو واپس آ ہی نہ سکتا؟”

علی خاموش رہا، اور پھر اُس نے وہ ڈائری سحر کے ہاتھ میں تھما دی۔

“یہ آخری باب تمہارے لیے ہے… آج کی رات۔”

سحر نے ڈائری کھولی، آخری صفحہ پڑھا:

“اگر قسمت مجھے بچا لے، تو میں وہ شخص بن کر لوٹوں گا جو تمہارے قابل ہو۔ اگر نہ لوٹ سکا، تو میرا ہر لفظ تمہیں زندگی دے گا۔ سحر، تم وہ خواب ہو جس نے مجھے موت سے لڑنا سکھایا۔”
“اور اگر میں پھر کبھی تمہارے سامنے کھڑا ہوں — تو جان لینا، میں جینے واپس آیا ہوں… تمہارے لیے۔”

سحر نے ڈائری بند کی، علی کے ہاتھوں کو تھاما، اور دھیرے سے کہا:

“تم نے مجھے لفظ دیے تھے، میں نے اُن سے زندگی بنائی۔ اب اگر تم واپس ہو… تو بس ایک سوال باقی ہے: کیا تم رکنے آئے ہو؟”

علی نے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیا:

“ہاں، ہمیشہ کے لیے۔ اگر تم اجازت دو، تو تمہارے ہر دن کی چاندنی بننا چاہتا ہوں۔”

سحر نے مسکرا کر چاند کی طرف دیکھا… آج مکمل چاند تھا — اور پہلی بار، اُس چاندنی رات کا وعدہ پورا ہوا۔

چاندنی رات کا نیا وعدہ

علی کے لوٹ آنے کے بعد سب کچھ بدلنے لگا تھا، مگر ایک چیز ویسی ہی رہی — سحر کا دل۔

اب انارکلی کی گلیاں ان کے قہقہوں سے گونجتی تھیں، وہی پرانا کتابوں کا اسٹال، اب دونوں کی کہانی کا سنگِ میل بن چکا تھا۔ علی کی شاعری اب سحر کی آنکھوں میں لکھی جاتی، اور سحر کی خاموشی اب علی کی نظموں کا موضوع بنتی۔

ایک شام، جب لاہور کی فضا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی اور آسمان پر چاند مکمل تھا، علی نے سحر کو انارکلی کے اس اسٹال پر بلایا جہاں سے سب کچھ شروع ہوا تھا۔

وہاں اب صرف کتابیں نہیں تھیں… ایک چھوٹی سی میز، دو کپ چائے، اور ایک سرخ گلاب رکھا تھا۔

سحر نے حیرت سے پوچھا:

“یہ سب کیوں؟”

علی نے مسکرا کر کہا:

“کہانی ختم ہونے سے پہلے، ایک نیا وعدہ کرنا ہے۔”

علی نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا مخملی ڈبہ نکالا۔ دل کی دھڑکنیں رک سی گئیں۔ سحر کی سانسیں تھم سی گئیں۔

علی نے ڈبہ کھولا — ایک سادہ سا، چاندی کا انگوٹھی کا حلقہ… لیکن اُس کے اندر کچھ کندہ تھا:

“چاندنی رات کا وعدہ — ابد تک”

علی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، اور سحر کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا:

“سحر، میری زندگی کی ہر نظم، ہر خاموشی، ہر چاندنی تم ہو۔ کیا تم میرا نام اپنی محبت کی ڈائری میں ہمیشہ کے لیے لکھو گی؟”

سحر کی آنکھوں میں آنسو، چہرے پر مسکراہٹ، اور لبوں پر صرف ایک لفظ:

“ہاں، علی… میں تمہارے ہر وعدے پر یقین رکھتی ہوں۔”

تالیاں نہیں بجیں، نہ کوئی تماشا ہوا — بس چاندنی رات، خاموشی، اور محبت کا گواہ آسمان بن گیا۔

مہینے بعد ان دونوں کی شادی ایک چھوٹی سی تقریب میں ہوئی — نہ دھوم، نہ شور — بس قریبی لوگ، شاعری، اور دعائیں۔

علی اور سحر نے اپنی زندگی کا پہلا دن اسی ڈائری سے شروع کیا، جو برسوں تک ان دونوں کا رابطہ رہی تھی۔ علی نے پہلی سطر لکھی:

“آج سے ہم وہ کہانی ہیں جو لفظوں میں شروع ہوئی، مگر زندگی بن گئی۔”

محبت اگر سچی ہو، تو وقت، فاصلہ، حالات… کچھ بھی اسے مٹا نہیں سکتا۔
سحر اور علی کی کہانی صرف ایک رومانوی داستان نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ:

“اگر تم کسی کو دل سے چاہو، اور وقت سے پہلے ہار نہ مانو… تو چاندنی رات کا وعدہ کبھی ادھورا نہیں رہتا۔”